داجل میں ایک بیٹی نے جنم لیا۔ (1984-1966)جس کا نام بخت آور بی بی رکھا گیا۔آنسہ بخت آور کریم
ستمبر 1922ء کو داجل ضلع راجن پور میں پیدا ہوئیں۔آپ کے والد کا نام ملک کریم بخش خان تھا۔ آپ شاعر ، ادیب اور سیکرٹری جنرل خواجہ فرید اکیڈمی محمد طفیل عرشی ا ور عمرانہ پروین عنبر کی والدہ تھیں۔ عملی زندگی کا آغاز درس و تدریس سے کیا اور گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول نمبر 1 ڈیرہ غازی خاں سے ہیڈ مسٹریس کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ آپ نے سرائیکی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ بھی کیا۔
آپ کی کتب کی تعداد درج ذیل ہے: 1۔گوہر شب چراغ تدوین کلام خواجہ فرید 2۔ آنحضرتؐ کے دور کی نعتیہ شاعری 3۔اٹک مٹک دیداںسرائیکی مجموعہ۔ 1984 4۔گلدستۂ مضامین بخت آور بی بی کے والد کریم بخش سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں مقیم رہا۔
کریم بخش نے اپنی بیٹی کو مخالفتوں کے باوجود پڑھانے کا ارادہ کرلیا۔ ا س زمانے میں جہاں لوگ لڑکوں کو تعلیم حاصل کروانے سے ڈرتے تھے وہاں اس نے نہ صرف اپنے ملک بلکہ غیر ملک یعنی بھارت میں بھی جاکر تعلیم حاصل کی۔ جن علاقوں میں وہ زیر تعلیم رہی ان میں دہلی لائل پور، (فیصل آباد) امر تسر، ملتان اور علی گڑھ شامل ہیں۔
وہ شعبہ تدریس سے وابستہ رہی۔ مظفر گڑھ سے راجن پور تبادلہ ہوا تو لوگوں کے فرسودہ خیالات بدلنے کی بھرپور کوشش کی۔ راجن پور سے ڈیرہ غازی خان تبادلہ ہوا۔ 11سال ڈیرہ غازی خان میں ملازمت کی۔ اپنے بیٹے طفیل احمد عرشی کی تعلیم کی وجہ سے لاہور تبادلہ کروایا۔ ڈیڑھ سال لاہور میں ملازمت جاری رکھی۔ 1976میں قبل از وقت ریٹائر منٹ لی اور مستقل لاہور میں سکونت اختیار کی۔
وہ ایک سخت گیر معلمہ اور منظم ماں تھی۔ ریاضی اس کا پسندیدہ مضمون تھا۔ ریاضی ہی کی عمر بھر تدریس کی اور ریاضی کے اصولوں کی طرح ہی منظم تھی۔اس کی شخصیت میں توازن تھا۔
”اٹک مٹک دیداں“ 1984میں شائع ہوئی۔ یہ سرائیکی مجموعہ کلام 156صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مجموعہ کلام میں عقیدتاں، ڈوہر ے، ربا عیاں، کافیاں، غزلاں اور نظماں شامل ہیں۔
داجل جیسے قصبے کی خاتون کے لیے شاعری کرنا آسان نہ تھا۔ ریت رواج، سماج اور معاشرے سے قبولیت کی سند حاصل کرنا بھی سہل نہ تھا مگر بخت آور کریم نے ہمت نہ ہاری۔ نیز ایک پسماندہ علاقے کی روشن خیال عورت نے جب کیفیات، جذبات اور خیالات کا رُخ حضرت خواجہ غلام فرید کی جانب موڑا تو یہ بھی وسیب کی ہر زہ سرائی سے بچنے کے شعوری کوشش تھی۔ سماجیات سے ”غیرمحسوس“بغاوت نے پیر فرید اور پھر داجل ہی کے مخدوم خاندان سے قربت کے باعث وہ بہت سے بہتانوں سے بچی رہی۔ پیری مریدی کے نظام میں جکڑے لوگوں کے لیے یہ بہت بڑی سعادت تھی کہ ایک عورت خواجہ فرید کی عقیدت مند ہے۔
سرائیکی شاعری میں اُردو کی پیوند کاری سے دلکشی پیدا کی گئی ہے۔
پنجابی، اُردو اور سرائیکی کی پیوند کاری سے اس کی شاعری معنی خیز ہوئی۔ ساتھ ہی ان اشعار میں ”برسوں کی ماری“ وصل کی خواہش کا اظہار بھی ہے۔
بخت آور کریم نے مختلف شعری جہتوں کا اپنایا۔کہیں ”عقیدتاں“ کہیں ”کافیاں“ کہیں ”ڈوہڑے“ کہیں ”رباعیاں“ کہیں ”غزلاں“اور کہیں ”نظماں“ گویا انہوں نے گلستان شاعر کو رنگا رنگ پھولوں سے سجادیا۔
”پھل پھل خوشبو“ بخت آور کریم کا غیر مطبوعہ کلام ہے۔
”مضامین گلدستہ“ نومبر 1980میں ادبی سنگت لاہور نے شائع کیا۔ مضامین گلدستہ کے موضوعات اراکین اسلام کا احاطہ کرنے کے علاوہ عید الفطر، عید الاضحی، شب معراج، شب برات، فضائل رمضان، وااقعہ کربلا اور محرم الحرام جیسے موضوعات پر سیر حاصل بحت کی گئی ہے۔
بخت آور کریم نے حیات وممات کی گھتیاں بھی سلجھائی ہیں۔وہ زندگی کے بارے میں لکھتی ہے۔
”زندگی جسے انسان روتے اور ہچکیاں بھرتے ہوئے قبول کرتا ہے اور چند دنوں کی مختصر مدت میں شمع انجمن اور مجسمہ درد بننے کے بعد سسیکوں اور آہوں کے طوفان میں ڈوب کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ جاتے ہیں“۔
اُردو تحریر بعض جگہوں پہ رعنائی کے پیکر میں بھی ڈھلی ہے۔
”گلابی رخسار جنہیں میں دیکھ کر اکثر عقیدت کا اظہار کیا کرتی تھی اب خزاں رسیدہ پتوں کی طرح زرد پڑ چکے ہیں۔ وہ عنبریں زلفیں جن سے ہمیشہ عرق گلاب کی بھینی بھینی خوشبوئیں نکھرتی تھیں اب ان کی دلکشی ظاہر اََمیر ے لیے مئے خانہ بن سکیں اور وہ گلاب کی پنکھڑیوں سے زیادہ نازک لب جن پر شام احمریں رنگ تلمیلا تا تھا۔ماند پڑ گیا۔ اب کچھ بھی رعنائی باقی نہیں رہی“
بخت آور کریم کی زندگی محنت، لگن اور جُستجو کا نام ہے۔ اس کا تخیل بھی معنی خیز ہے اور تحریر بھی روشنی کا استعارہ ہے
Comments
Post a Comment